اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ابنا ـ کی رپورٹ |
مغرب شدید ڈبل اسٹینڈرڈ سینڈروم سے دوچار
فرانس اور جرمنی نے غزہ کے بعد شام میں بھی خواتین
کے قتل کی حمایت کردی
ان دو بڑے یورپی ممالک اور ہر میدان ميں پیشروی
کے دعویدار ممالک "فرانس اور جرمنی" کے وزرائے خارجہ نے حال ہی میں کوٹ
پتلون پہنے اور ٹائی سجائے شادی الویسی سے ملاقات کی۔ الویسی القاعدہ کا جلاد اور
قاضی رہا ہے اور اب "وزیر قانون" بیٹھا ہے القاعدہ کے اپڈیٹڈ راہنما
الجولانی کی عبوری کابینہ میں۔
شادی الویسی کی ایک ویڈیو میں انٹرنیٹ پر دستیاب
ہے جس میں اسے ایسے حال میں دکھایا گیا ہے کہ
وہ بظاہر اس خاتون پر نمائشی سا مقدمہ چلاتا ہے اسے زنا کی مجرمہ قرار دیتا
ہے، کوئی وکیل کوئی عدالت نہیں ہے، بولنے والا صرف وہ خود ہوتا ہے؛ ایک باپردہ شامی خاتون کو چوراہے کے بیچ خود ہی
گولی مارتا ہے۔ اس مقدمے میں کسی اسلامی نظام عدل کے تقاضوں کی تضحیک ہوئی ہے، چار
گواہوں کی جگہ شادی الویسی گویا خود گواہی دیتا ہے، بس ایک شخص ہے جو مدعی بھی ہے،
قانون نافذ کرنے والا اہلکار اور پولیس مین بھی ہے، قاضی بھی ہے اور جلاد بھی۔
اب یہ شخص وزیر بنا ہے اور مغربی ممالک کے دوہرے
معیار دیکھئے کہ ان کے وزرائے خارجہ اس کی خدمت میں جاکر "عدل و انصاف اور
عدلیہ اور قانون" کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں۔ دوہرے معیار کا مطلب یہی
خباثت ہے، اور مغربی رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی بات بھی وہ نہیں ہوتی جو
مغرب کے حکمرانوں کی زبان سے نکلتی ہے۔
واضح رہے کہ شادی الویسی صہیونی یلغار کا حصہ
بننے والے ٹولوں میں سے ایک یعنی القاعدہ کی شامی شاخ "جبہۃ النصرہ" میں
قاضی کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور چونکہ خون انسان سے وجد میں آتا ہے، لہذا جلاد
کا کام بھی خود کرتا رہا ہے۔ اس نے 2015ع میں شام کے معرۃ مصرین کے علاقے میں کئی
خواتین کو گولی مار کر قتل کیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ان دو زرائے خارجہ سے شادی
الویسی کے پاؤں چوم کر شام میں بھی خواتین کے قتل عام کی عملی حمایت کی ہے، جبکہ
الجولانی کی طرح الویسی کے جرائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور یہ ایک المیہ ہے
کیونکہ یہ دو ممالک خاص طور پر انسانی حقوق اور حقوق انسان کا راگ الاپتے رہتے
ہیں؛ حالانکہ یہ خود حقیقتا فساد کے جرثومے ہیں اور اسلامی ممالک میں انسانی حقوق
کی خلاف ورزیوں کے دعؤوں میں مصروف رہتے ہیں۔
مغربی ممالک کے کے حکام ایسے حال میں ـ کھلے
بانہوں کے ساتھ ـ ان دہشت گردوں کی طرف بڑھ گئے ہیں اور صرف یہی ایک منظر بھی بہت
واضح طور پر مغرب کے دعؤوں کے کھوکھلے پن اور شدید ڈبل اسٹینڈرڈ سینڈروم کی چيختی
چلاتی مضحک اور تکلیف دہ تصویر پیش کر رہا ہے۔
ادھر شامی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ الجولانی
کی دہشت گرد تنظیم نے گذشتہ ہفتوں کے دوران بے شمار شامی باشندوں کو افراد کو
سڑکوں پر گولی مار کر قتل کیا ہے، لوگوں پر تشدد کیا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے
لوگوں کے گھروں کو نذر آتش کیا ہے اور ان کاروائیوں کی سینکڑوں ویڈیو کلپس انٹرنیٹ
پر وائرل کرکے دنیا بھر کی رائے عامہ اور شامی عوام کے غم و غصے کے اسباب فراہم
کئے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق، تحریر الشام کے سرکردگان
جانتے ہیں کہ ان ویڈیو کلپس کی وجہ سے عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ سکتی ہے اور بعض
وائس میسجز سے یہ بھی معلوم ہؤا ہے کہ الجولانی نے اپنے گماشتوں سے کہا کہ وہ
لوگوں کو خفیہ طور پر قتل کریں، گرفتار کریں، یا ان پر تشدد کریں، تو کوئی حرج
نہیں ہیں لیکن ان اقدامات کی ویڈیو اور تصویریں نہ بنائیں۔ "حکم یہ ہے کہ
خفیہ طریقے سے تشدد کرو"، چنانچہ قتل و غارت الجولانی گینگ کے بنیادی ایجنڈے
کا حصہ ہے۔
یورپ اور امریکہ اردوگان کے بے لگام گھوڑے کو
لگام دینا چاہتے ہیں
ایک رپورٹ یہ بھی تھی یورپی وزرائے خارجہ
"صرف مبارکباد کہنے کے لئے" دمشق نہیں گئے تھے، بلکہ ان کا اصل مقصد وہم
میں مبتلا "سلطان" رجب طیب اردوگان کے بے لگام گھوڑے کو لگام دینا اور
ان کے لئے کچھ حدود متعین کرنا تھا۔
مبصرین کہتے ہیں کہ یہ تصور درست نہیں کہ جرمنی
کی خاتون وزیر خارجہ ـ جنہوں نے حفاظتی جیکٹ
پہن رکھی تھی ـ اور فرانسیسی وزیر خارجہ ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، اس لئے کہ
الجولانی کو فتح کی مبارکباد دیں، وہ الجولانی سے یہ کہنے آئے تھے کہ "شمال
مشرقی شام کے تیل کے ذخائر اور کردوں کی عملداری مغرب کے ہاں سرخ لکیر ہے"۔
وہ الجولانی کو شمال مشرق پر دھاوا بولنے سے باز رکھنا چاہتے تھے اور ساتھ ہی
اردوگان کو بھی یاددہانی کرانا چاہتے تھے کہ اپنے گھوڑے کو لگام دے۔ واضح رہے کہ
ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے اس سے قبل میت (Millî İstihbarat Teşkilatı [MIT]) کے سربراہ نے ان یورپی وزراء سے قبل شام کا دورہ
کیا تھا اور دمشق کے جبل قاسیون کی چوٹی پر چائے نوش کی تھی اور یورپی وزرائے
خارجہ اس لئے آئے تھے کہ شامی چائے کا مزہ ان کے منہ میں باقی نہ رہے، اور یہ کہ اگلے
سفارتی اقدامات اردوگان اور ترکیہ کے لئے اس سے کہیں زیادہ تلخ ہونگے۔
گویا ترکیہ کی شام کے پر چڑھائی کے ابھی دو
مہینے بھی نہیں گذرے ہیں لیکن انقرہ کو دمشق میں فراموش کیا جا رہا ہے، جو مغربی
سفارتکاری کا نتیجہ ہے۔ مغرب نے اردوگان کو یہ بھی جتایا کہ نیٹو میں ترکیہ کی
رکنیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان کی دم پر پاؤں رکھنے کا بھی حق رکھتا ہے!
فرانس کے وزیر خارجہ نے تمام تر بے عزتیاں سہنے
کے باوجود فرانس پہنچ الجولانی کی حمایت کا دو ٹوک اعلان کیا، تاکہ الجولانی
تنہائی محسوس کرکے ایک بار پھر اردوگان کے دامن میں نہ جا بیٹھے!
۔۔۔۔۔۔۔
110






